میری رسوائی کا یوں جشن منایا تم نے
میری رسوائی کا یوں جشن منایا تم نے
ریت پر نام لکھا اور مٹایا تم نے
فکر کی دھوپ میں جھلسی ہوں کئی صدیوں تک
میں نے پایا ہے تمہیں مجھ کو نہ پایا تم نے
میں نے جب چاہا بھلا دوں تری یادوں کو تبھی
پیار کا گیت مجھے آ کے سنایا تم نے
عشق نے سدھ ہی بھلا دی تھی مرے تن من کی
ٹوٹ ہی جاتی مگر مجھ کو بچایا تم نے
وقت نے مجھ سے اسی وقت ہنسی چھینی ہے
جب بھی روتی ہوئی آنکھوں کو ہنسایا تم نے
احتیاطوں نے مرے پاؤں وہیں روک لئے
جب مری سمت کبھی ہاتھ بڑھایا تم نے