میں جس دن سے اکیلی ہو گئی ہوں

میں جس دن سے اکیلی ہو گئی ہوں
میں کیسی تھی میں کیسی ہو گئی ہوں


نہیں کچھ یاد رہتا ہیں مجھے اب
بچھڑ کر تم سے پگلی ہو گئی ہوں


تصور نے ترے مجھ کو چھوا پھر
اچانک سے میں اچھی ہو گئی ہوں


ترا غم مجھ کو راس آنے لگا ہے
بکھر کر پھر اکٹھی ہو گئی ہوں


پریشانی یہ مجھ سے ہنس کے بولی
ترے گھر کی میں بچی ہو گئی ہوں


جو میرا ہو کے میرا ہو نہ پایا
نہ ہو کر بھی اسی کی ہو گئی ہوں


مجھے پھر لوٹ کے جانا ہے اس تک
جو میرا تھا اسی کی ہو گئی ہوں


جسے دیکھو وہ ہی کہتا ہے مجھ سے
سراپا اک اداسی ہو گئی ہوں


سیاؔ کچھ دن سے بوجھل ہے بہت دل
میں رو رو کر کے ہلکی ہو گئی ہوں