موت جب میرے نزدیک آنے لگی
موت جب میرے نزدیک آنے لگی
زندگی پھر مجھے کیوں لبھانے لگی
ایک تو کیا گیا ہے جہاں سے مرے
جو بھی تھی آرزو سب ٹھکانے لگی
خواب میں بھی بچھڑنے لگے مجھ سے تم
نیند بھی آ کے مجھ کو ڈرانے لگی
تو تو اپنی تھی میری تجھے کیا ہوا
زندگی تو بھی اب آزمانے لگی
دھوپ پر میں کوئی تبصرہ کیا کروں
چھاؤں بھی اب تو مجھ کو جلانے لگی
جب بھی تنہائیاں مجھ پہ حاوی ہوئی
لفظ کاغذ پہ پھر سے سجانے لگی
زندگی بھر کوئی ساتھ دیتا نہیں
میں سیاؔ خود کو یوں ورغلانے لگی