سیا سچدیو کی غزل

    جس دن سے مری تم سے شناسائی ہوئی ہے

    جس دن سے مری تم سے شناسائی ہوئی ہے اس دن سے مری اور بھی رسوائی ہوئی ہے تم نے ہی نظر بھر کے نہیں دیکھا ہے مجھ کو ایسے میں بھلا خاک پذیرائی ہوئی ہے قصہ جو نیا پاس کوئی ہے تو سناؤ یے بات تو سو بار کی دہرائی ہوئی ہے چاہوں بھی تو میں توڑ نہیں پاؤں گی اس کو رسموں کی یے زنجیر جو پہنائی ...

    مزید پڑھیے

    سلگتے دشت کا منظر ہوئی ہیں

    سلگتے دشت کا منظر ہوئی ہیں یہ آنکھیں ہجر میں بنجر ہوئی ہیں تمہاری آرزو کو مل گیا گھر ہماری حسرتیں بے گھر ہوئی ہیں محبت میں تڑپ آہیں اذیت یہ سب دشواریاں اکثر ہوئی ہے نگاہوں میں کوئی تصویر ابھری یہ آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوئی ہیں نہیں میں وہ نہیں ایسے نہ دیکھو بہت تبدیلیاں اندر ...

    مزید پڑھیے

    اب تو یہ سفر اپنا آسماں سے آگے ہے

    اب تو یہ سفر اپنا آسماں سے آگے ہے مرحلہ حقیقت کا اب گماں سے آگے ہے جس سکوں کی چاہت ہے وہ یہاں نہیں ممکن کیونکہ اپنی منزل ہی اس جہاں سے آگے ہے گفتگو ہماری اب کیا کوئی سمجھ پائے فکر ہی ہماری جب ہر بیاں سے آگے ہے اتنا محترم کوئی اور ہے زمانے میں اس جہان میں رشتہ کوئی ماں سے آگے ...

    مزید پڑھیے

    اب کوئی سلسلہ نہیں باقی

    اب کوئی سلسلہ نہیں باقی دوستوں میں وفا نہیں باقی زندگی تجھ پہ رائے کیا دو میں اب کوئی تبصرہ نہیں باقی وقت بے وقت کیوں برستے ہیں بادلوں میں حیا نہیں باقی زندگی تجھ سے اور لڑنے کا مجھ میں اب حوصلہ نہیں باقی رنج، الجھن، گھٹن، پریشانی روگ کوئی رہا نہیں باقی اپنی منزل کو چھو لیا ...

    مزید پڑھیے

    فصیل درد کو میں مسمار کرنے والی ہوں

    فصیل درد کو مسمار کرنے والی ہوں میں آنسوؤں کی ندی پار کرنے والی ہوں مجھے خدا کی رضا سے ہے واسطہ ہر دم میں خود نمائی سے انکار کرنے والی ہوں یہ اس کی مرضی کہ اقرار وہ کرے نہ کرے میں آج خواہش اظہار کرنے والی ہوں وہ جس نے کی ہے ہمیشہ مخالفت میری اسی کو اپنا مددگار کرنے والی ہوں وفا ...

    مزید پڑھیے

    دیکھتا کیا ہے تو حیرت سے ہمارا چہرہ

    دیکھتا کیا ہے تو حیرت سے ہمارا چہرہ ہم نے مدت سے سجایا نہ سنوارا چہرہ یہ تو اچھا ہے کی بے رنگ ہے آنسو ورنہ کس قدر داغ لیے پھرتا ہمارا چہرہ روز ہوتا ہے گزر ایک نئی آندھی سے اور اٹ جاتا ہے پھر دھول سے سارا چہرہ زندگی ایک ہی چہرے پہ گزاری ہم نے ہم نے پہنا نہ کبھی ہم نے اتارا ...

    مزید پڑھیے

    پہلے ہوتا اگر شعور اتنا

    پہلے ہوتا اگر شعور اتنا شیشۂ دل نہ ہوتا چور اتنا عشق اس سے ہی تھا ہوا احساس ہو گیا جب وہ مجھ سے دور اتنا کہہ نہ پائے کہ بے قصور ہیں ہم ہو گیا ہم سے بے قصور اتنا خواب میں بھی سفر نہیں ہوتا جسم ہے اب تھکن سے چور اتنا تو بھی مٹی کا ایک پتلا ہے کس لئے ہے تجھے غرور اتنا لوٹ آنا بھی اب ...

    مزید پڑھیے

    ہے جو دیوار پر گھڑی تنہا

    ہے جو دیوار پر گھڑی تنہا دیکھتی ہوں پڑی پڑی تنہا چاند میں عکس ڈھونڈھتی ہوں ترا روز آنگن میں میں کھڑی تنہا سوچتی ہوں کی جلد دن نکلے رات اتنی لگے بڑی تنہا یاد کرتی ہوں اپنے ماضی کو حال کی قبر میں پڑی تنہا سارے اپنوں کی بھیڑ میں رہ کر اپنے حالات سے لڑی تنہا

    مزید پڑھیے

    آرزوؤں کو انا گیر نہیں کر سکتے

    آرزوؤں کو انا گیر نہیں کر سکتے خواب کو پاؤں کی زنجیر نہیں کر سکتے کیا ستم ہے کی مقدر میں لکھا ہے سب کچھ پھر بھی ہم شکوۂ تقدیر نہیں کر سکتے جب بلائے گی ہمیں موت چلے جائیں گے حکم ایسا ہے کی تاخیر نہیں کر سکتے یہ سفر وہ ہے کی جو چھوٹ گیا چھوٹ گیا پھر اسے پانے کی تدبیر نہیں کر ...

    مزید پڑھیے

    اٹھا کے غم ترا اے زندگی نہ روئیں گے

    اٹھا کے غم ترا اے زندگی نہ روئیں گے ہمارا وعدہ رہا اب کبھی نہ روئیں گے ہم اپنے سینے پہ رکھ لیں گے ضبط کا پتھر اگر ہے اس میں تمہاری خوشی نہ روئیں گے ہمارے غم نے تمہیں پھر سے کر دیا ہے اداس تمہارے سامنے اب ہم کبھی نہ روئیں گے ہم اپنی شدت احساس کو چھپا لیں گے سنا کے اپنی کبھی بے بسی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3