قلم میں اشک بھر کر لکھ رہی ہوں درد کاغذ پر

قلم میں اشک بھر کر لکھ رہی ہوں درد کاغذ پر
بکھیرے جا رہی ہوں حسرتوں کو سرد کاغذ پر


تڑپ عورت کے دل کی صرف اک عورت سمجھتی ہے
بس اپنی خواہشوں کو لکھ رہے ہیں مرد کاغذ پر


چلو مانا کہ کہہ لینے سے دکھ ہلکا ہی ہوتا ہے
مگر کچھ ہی پلوں میں اتنا سارا درد کاغذ پر


یوں ہی بس آج میں نے اک پرانی ڈائری کھولی
جمی تھی کب سے یادوں کی پرانی گرد کاغذ پر


نسائی کرب لکھنے کا ہنر ہم کو ہی آتا ہے
حکومت اپنی ثابت کر رہے ہیں مرد کاغذ پر


تبھی جا کر غزل کو اک نئے پیکر میں ڈھالا ہے
لہو کی سرخ بوندیں جب گری ہے زرد کاغذ پر


نمی سے گل بھی سکتے ہیں شرر سے جل بھی سکتے ہیں
بھروسا کر رہی ہیں کیوں سیاؔ بے درد کاغذ پر