رنج اتنے ملے زمانے سے
رنج اتنے ملے زمانے سے
لب چٹختے ہیں مسکرانے سے
دھندلی دھندلی سی پڑ گئی یادیں
زخم بھی ہو گئے پرانے سے
مت بناؤ یہ کانچ کے رشتے
ٹوٹ جائیں گے آزمانے سے
تیرگی شب کی کم نہیں ہوگی
گھر کے اندر دیے جلانے سے
عقل نے دل کو کر دیا ہشیار
بچ گئے ہم فریب کھانے سے
ہو ہی جائیں گے ہم رہا اک دن
چھوٹ جائیں گے قیدخانے سے
اے سیاؔ تنگ آ چکی ہوں میں
حوصلہ کی چتا جلانے سے