Shiv Om Misra Anvar

شیواوم مشرا انور

شیواوم مشرا انور کی غزل

    میرا وجود قابل صحرا تو ہے نہیں

    میرا وجود قابل صحرا تو ہے نہیں سودا تمہارے عشق کا رکھا تو ہے نہیں بہتر ہے بھول جاؤں میں اس کی مخالفت اس سے نجات کا کوئی ذریعہ تو ہے نہیں اس دل میں ایک حلقۂ احباب اور ہے خالی تمہارے نام کا ٹھپہ تو ہے نہیں اگنی کے سات پھیرے لیے ہیں تمہارے ساتھ خالی یہ چند روز کا رشتہ تو ہے ...

    مزید پڑھیے

    کب تلک بات کروں میں تری تصویر کے ساتھ

    کب تلک بات کروں میں تری تصویر کے ساتھ لفظ لپٹے ہیں مرے حلقۂ زنجیر کے ساتھ خواب میں دیکھا تھا کل رات نظارا کیسا ایک زنجیر بندھی تھی مری تصویر کے ساتھ حشر تک جیت کا ارمان لیے بیٹھا رہا وقت کی ناؤ پہ ٹوٹی ہوئی شمشیر کے ساتھ بات ہم کو نہ سمجھ آئی تمہاری اب تک بات ہم کو ذرا سمجھاؤ تو ...

    مزید پڑھیے

    اتنے امکان کے اجالوں میں

    اتنے امکان کے اجالوں میں زندگی پھنس گئی وبالوں میں تجزیہ خود کا جب کیا ہم نے زیست گم ہو گئی سوالوں میں کچھ نہیں اعتبار مستوں کا رات دن غرق ہے پیالوں میں آج بھی ویسی ہی وہ دکھتی ہے کچھ نہیں بدلا اتنے سالوں میں اب خیالوں میں تندرستی ہے آ گئے جب سے تم خیالوں میں میں ابھی سن کے ...

    مزید پڑھیے

    ارادے کیا ہوئے لمبے ہمارے

    ارادے کیا ہوئے لمبے ہمارے قدم پڑتے نہیں چھوٹے ہمارے بڑھا ہے درمیاں یہ پیار جب جب ہوئے ہیں کس قدر جھگڑے ہمارے سمجھتا تھا بڑا معصوم اس کو اڑے ہیں عشق میں طوطے ہمارے لگی ہے شرط دیکھے گا پلٹ کر ہوئے سب تعزیے ٹھنڈے ہمارے یہیں تو دیکھنا ہے وقت مشکل رہیں گے ساتھ میں کتنے ہمارے شجر ...

    مزید پڑھیے

    پریشاں اس طرح ہونے سے کیا ہوگا

    پریشاں اس طرح ہونے سے کیا ہوگا وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا کبھی سوچا نہیں میں نے محبت میں وہ مجھ سے روٹھ کر ایسے خفا ہوگا نہیں کوئی شکایت ہے مجھے اس سے شب فرقت میں وہ بھی تو جلا ہوگا چلو گے کب تلک تم ان کے کاندھوں پر بھلا کیا خاک تم کو تجربہ ہوگا بہت ہی مشترک تھے درد دونوں ...

    مزید پڑھیے

    عشق سے پہلے وہ انسان تھا اچھا خاصا

    عشق سے پہلے وہ انسان تھا اچھا خاصا اس کا جیون بھی گلستان تھا اچھا خاصا ہم بزرگوں سے ہمیشہ یہی سنتے آئے اس جگہ پھولوں کا بستان تھا اچھا خاصا کب تلک ہاتھ کو پھیلاتا میں اس کے آگے اس کا پہلے سے ہی احسان تھا اچھا خاصا کسی عورت نے نہیں بھیجی ہے اس کو لعنت جو مرے جسم میں حیوان تھا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی قریب کبھی دور سے گزرتے ہوئے

    کبھی قریب کبھی دور سے گزرتے ہوئے عذاب دیتے ہیں کچھ لوگ میرے برتے ہوئے قریب پانی کے جانا نہیں کسی صورت وصیت آگ نے کی تھی شرر کو مرتے ہوئے بنا ہے جب سے مرا جسم حیرتوں کا مقام میں دیکھتا ہوں جہاں میں سبھی کو ڈرتے ہوئے یتیم لگنے لگا عشق میرا مجھ کو خود میں رو پڑا ہوں نظر سے تری ...

    مزید پڑھیے

    بدن کے پاس خوشی کی اساس ہو کر بھی

    بدن کے پاس خوشی کی اساس ہو کر بھی رکھا ہے غم سے تعلق اداس ہو کر بھی ذلیل جب سے کیا ہے امیر لوگوں نے نہیں وہ مانگتا کچھ بھوک پیاس ہو کر بھی نہ کام کاج نہ روٹی سو چل پڑے پیدل قدم رکے ہی کہاں اتنی یاس ہو کر بھی ہوئی ہے رنگ محبت میں تتلیوں کی نمود بدن نے دیکھ لیا بد حواس ہو کر ...

    مزید پڑھیے

    ہاں اگر دن کو کبھی رات کہا جاتا ہے

    ہاں اگر دن کو کبھی رات کہا جاتا ہے اس کو مجبورئ حالات کہا جاتا ہے آسماں ہو کے بھی جو لوگ زمیں جیسے ہیں ایسے لوگوں کو ہی سادات کہا جاتا ہے جب سنا اوروں کے منہ سے تو یہ جانا میں نے میری شہرت میں ترا ہات کہا جاتا ہے آنکھ سے گر کے مرے اشک زمیں دوز ہوئے ہجر میں اس کو ہی برسات کہا جاتا ...

    مزید پڑھیے

    دل کے پنے سے نہیں مٹتی عبارت ان کی

    دل کے پنے سے نہیں مٹتی عبارت ان کی اب بھی قائم ہے مرے دل میں محبت ان کی لوگ کرتے ہیں اندھیروں میں تجارت دیکھو سامنے آتی نہیں اب تو حقیقت ان کی پھول اتراتے ہیں ڈالی پہ ذرا دیکھو تو خوب بھاتی ہے مرے دل کو زیارت ان کی یاد بھی ذہن سے پھر دور بھلا ہو کیسے پاس مجھ کو جو بلا لیتی ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3