اجڑے ہوئے دل میں بھی ترا دھیان رہا ہے

اجڑے ہوئے دل میں بھی ترا دھیان رہا ہے
شہروں سے بھی آباد بیابان رہا ہے


ہم نے تجھے سو رنج میں چھوڑا تھا مگر دوست
دل ترک تعلق پہ پشیمان رہا ہے


شاید یہ کسی تازہ مصیبت کے ہے در پے
کچھ روز سے دل میرا کہاں مان رہا ہے


ڈھونڈا جسے تا عمر کہیں وہ تو نہیں تم
ٹھہرو تو سہی دل تمہیں پہچان رہا ہے


جب وجہ شکایت تھی بہم بات ذرا سی
باہم بہ دل اخلاص اسی دوران رہا ہے


تم آج ہمارے نہیں بنتے ہو تو کیا ہے
لیکن کبھی اس بات کا امکان رہا ہے


شوکتؔ عجب انداز کا ہے شہر بتاں دل
آباد ہوا ہے کبھی ویران رہا ہے