جسم کو جاں کا سرا پردۂ رعنائی کر

جسم کو جاں کا سرا پردۂ رعنائی کر
سائے کو دھوپ میں پھیلا کے نہ ہرجائی کر


فکر کو ذہن کی دیوار پہ تصویر بنا
آنکھ کو مدح سرا دل کو تماشائی کر


ہیں تری ذات میں بھی بو قلموں ہنگامے
تو اسے صرف تماشہ گہۂ تنہائی کر


شہر اور شہر ترا نام نکلتا جائے
اے ستم گر مری بھی کھول کے رسوائی کر


عین ممکن ہے کہ ہو جائے یہی سجدہ قبول
اپنی دہلیز پہ اب ناصیہ فرسائی کر


مرنے والوں کو جلانے کا تکلف کیا ہے
جیتے جی مر گئے جو ان کی مسیحائی کر


شوکتؔ اب آنسوؤں میں بھیگ رہی ہے آواز
درد بہنے لگا ہے زمزمہ آرائی کر