نظر نواز وہ پہلی سی ہستیاں نہ رہیں
نظر نواز وہ پہلی سی ہستیاں نہ رہیں
روا ہمارے لیے بت پرستیاں نہ رہیں
فضا ہی وہ نہیں دیہات اور شہروں کی
بسائی تھیں جو کبھی اب وہ بستیاں نہ رہیں
تری نگاہ سے پینے کی آرزو کی تھی
پھر اس کے بعد شرابوں میں مستیاں نہ رہیں
یہ اور بات ترا دل نہ ہو سکا شاداب
وگرنہ آنکھیں مری کب برستیاں نہ رہیں
وہی ہے بھاؤ ٹکے سیر دکھ کی منڈی میں
اگرچہ خاک سی چیزیں بھی سستیاں نہ رہیں
تمام ہو گئے سارے سماج کے بندھن
وہ رکھ رکھاؤ گیا گھرگرہستیاں نہ رہیں
موازنے کا ہے سارا معاملہ شوکتؔ
بلندیاں نہ رہیں جب تو پستیاں نہ رہیں