دوست کو محرم بنا کر دشمن جاں کر دیا
دوست کو محرم بنا کر دشمن جاں کر دیا
تو نے اے دل آپ بربادی کا ساماں کر دیا
لغزش آدم تو ہم تک آئی ہے میراث میں
تھے فرشتے لیکن اس خوبی نے انساں کر دیا
مہرباں نے غم غلط کرنے کی رکھی ہے سبیل
جب پڑا ہے قحط مے تو زہر ارزاں کر دیا
کیسے کیسے عزم ہو کر رہ گئے منزل کی نذر
کیسی کیسی خواہشوں کو تم نے ارماں کر دیا
کب خرد میں ضعف آیا ہے کبھی لیکن اسے
وسوسوں نے کند اندیشوں نے حیراں کر دیا
ہم نے بھی محسوس کی ٹھنڈک ذرا سی چھاؤں میں
آج شوکتؔ کس نے زلفوں کو پریشاں کر دیا