درمیاں گر ہیں فاصلے کوئی

درمیاں گر ہیں فاصلے کوئی
دل کے رستے سے آ ملے کوئی


دشت ہے راہ میں بہار یہاں
گل نمونے ہی کو کھلے کوئی


جی میں ہے بے رخی کریں اب ہم
اور ہم سے کرے گلے کوئی


یوں بھی ٹوٹے ہیں زود رنج حبیب
زندگی بھر کے سلسلے کوئی


لٹ گئے ہیں پہنچ کے منزل پر
جو بچے رہ میں قافلے کوئی


ناشناسان فن سے تو شوکتؔ
داد مانگے نہ لے صلے کوئی