کچھ ہنر اور سمجھتے ہیں نہ فن جانتے ہیں

کچھ ہنر اور سمجھتے ہیں نہ فن جانتے ہیں
ہم ترے ذکر کو شایان سخن جانتے ہیں


روح کی غایت علوی کا نہ ہو اندازہ
ہم مگر مقصد تخلیق بدن جانتے ہیں


استعارے ہیں ترے عارض و چشم و لب کے
یہ حدیث گل و شہلا و سمن جانتے ہیں


یہ الگ بات نہیں آئی زمانہ سازی
ہم مگر خوب زمانے کا چلن جانتے ہیں


رقص زنجیر کے آہنگ پہ ہوتا ہے سوا
رمز لیکن یہ کہاں زمزمہ زن جانتے ہیں


باغباں بھی ہے تصرف میں شریک گلچیں
اس حقیقت کو کوئی اہل چمن جانتے ہیں


لفظ و تخئیل کو جو کر نہ سکے ہم آہنگ
شوکتؔ اس شخص کو ہم فارغ فن جانتے ہیں