تمام عمر کیا ہم نے انتظار سحر
تمام عمر کیا ہم نے انتظار سحر
سحر ہوئی بھی تو آیا نہ اعتبار سحر
بھٹک رہا ہے کہاں کاروان دیدہ و دل
نہ یہ دیار شب غم نہ یہ دیار سحر
سنبھل سنبھل کے چلے کاروان لالہ و گل
یہ رہ گزار سحر ہے یہ رہ گزار سحر
کسی کے حسن تبسم کی اک کرن چھو کر
گلوں کو بخش دیا ہم نے اختیار سحر
ترا خیال نہ آئے ترا خیال آئے
یہی خزاں ہے سحر کی یہی بہار سحر
ابھی تو پھول کھلے ہیں ذرا مہکنے دو
ابھی سے کیسے اتر جائے گا خمار سحر
شب فراق کا ہر لمحہ ہے حسیں نشترؔ
نہ آنکھ میں کوئی آنسو نہ انتظار سحر