نقوش عہد گذشتہ ابھارنے کے لئے

نقوش عہد گذشتہ ابھارنے کے لئے
میں کھیلتا ہوں ہر اک کھیل ہارنے کے لئے


ترا حسین تصور ہی کم نہیں اے دوست
غم حیات کے گیسو سنوارنے کے لئے


سمیٹ لے غم کونین اپنے دامن میں
جنون عشق نیا روپ دھارنے کے لئے


تمام عمر مری زندگی رہی بیتاب
سکون کا کوئی لمحہ گزارنے کے لئے


جگر کے زخموں پہ کیا کیا گزر گئی نشترؔ
یہ مہر و ماہ زمیں پر اتارنے کے لئے