کرنی ہے راہ زیست جو ہموار دوستو
کرنی ہے راہ زیست جو ہموار دوستو
کیوں ڈھونڈتے ہو سایۂ دیوار دوستو
ارزاں کچھ اتنی ہو گئی جنس وفا کہ اب
ملتا نہیں ہے کوئی خریدار دوستو
مدت ہوئی متاع دل و جاں لٹے ہوئے
اب بھی وہی ہے گرمئ بازار دوستو
خون جگر سے لکھتے چلو نقش پا کے ساتھ
کیا کہہ رہی ہے وقت کی رفتار دوستو
نشترؔ بتائے حال چمن کیا کہ ان دنوں
ہر زخم دل ہے حاصل گلزار دوستو