زندگی ایسی سزا ہے کہ سزا بھی تو نہیں
زندگی ایسی سزا ہے کہ سزا بھی تو نہیں
دل دھڑکتا ہے دھڑکنے کی صدا بھی تو نہیں
کیا خد و خال تھے کچھ یاد رہا بھی تو نہیں
ایسا بچھڑا کوئی مدت سے ملا بھی تو نہیں
آہٹیں کیا ترے قدموں کی سنائی دیں گی
اب کہ پہلو میں دل نغمہ سرا بھی تو نہیں
رہنوردان رہ عشق بھٹک ہی نہ سکیں
اتنے تابندہ نقوش کف پا بھی تو نہیں
یوں تری یاد میں اک عمر گزاری کہ مجھے
اپنی تنہائی کا احساس ہوا بھی تو نہیں
کس کو روداد غم عشق سنائی جائے
دشت میں اور کوئی آبلہ پا بھی تو نہیں
ایک مدت سے کوئی زخم دل و جان نشترؔ
بے نیاز کرم موج صبا بھی تو نہیں