ہو کے وارفتہ کہیں خود کو پکارا تو نہیں
ہو کے وارفتہ کہیں خود کو پکارا تو نہیں
نام جو لب پہ ہمارے ہے تمہارا تو نہیں
عالم تیرہ شبی مجھ کو گوارا تو نہیں
میں کہ اشک سر مژگاں ہوں ستارا تو نہیں
وقت کہتے ہیں کہ ہر زخم کو بھر دیتا ہے
وقت نے میرا کوئی قرض اتارا تو نہیں
روشنی بن کے ابھرنا نہیں آساں پھر بھی
ڈوب کیا جاؤں کہ میں صبح کا تارا تو نہیں
ایک لمحہ تھا کہ اک عمر مجھے کیا معلوم
وقت خود بیت گیا میں نے گزارہ تو نہیں
عمر طوفاں کے تھپیڑوں میں بسر کی لیکن
ساکنان لب دریا کو پکارا تو نہیں
روشنی دل میں نظر آئے تو نشترؔ سوچیں
عہد رفتہ نے کوئی نقش ابھارا تو نہیں