منزل پہ پہنچتے ہی ستم ٹوٹ رہے ہیں

منزل پہ پہنچتے ہی ستم ٹوٹ رہے ہیں
اے ضبط فغاں دیکھ کہ ہم ٹوٹ رہے ہیں


کیوں زیست کو الفاظ و معانی نہیں ملتے
کیوں صفحۂ ہستی پہ قلم ٹوٹ رہے ہیں


اس دور پر آشوب میں اب اپنے ہی ہاتھوں
اپنے ہی تراشیدہ صنم ٹوٹ رہے ہیں


کر دیکھیں کچھ اپنی ہی وفاؤں میں اضافہ
ہم ان کی جفاؤں سے تو کم ٹوٹ رہے ہیں