دست وحشت میں گریبان سا ہوں

دست وحشت میں گریبان سا ہوں
کچھ دنوں سے میں پریشان سا ہوں


کہہ رہا ہے یہ ترا حسن و جمال
غالبؔ و میرؔ کا دیوان سا ہوں


اور کچھ دیر مرے ساتھ رہو
اور کچھ دیر کا مہمان سا ہوں


روح کہتی ہے کہ الزام نہ دے
جسم کہتا ہے کہ بے جان سا ہوں


صورتیں دیکھ رہا ہوں نشترؔ
مثل آئینہ ہوں حیران سا ہوں