Shakeeb Rizvi

شکیب رضوی

شکیب رضوی کی غزل

    سماعتوں پہ گراں بے زبانیاں اس کی

    سماعتوں پہ گراں بے زبانیاں اس کی اسیر‌ دیر و حرم لا‌ مکانیاں اس کی ہر ایک چہرے پہ بے چہرگی کے سائے ہیں گرفت میں نہیں آتیں نشانیاں اس کی یہ کس نے لحن سے کاٹا ہے نور کا رشتہ کہ بے نوا ہوئیں جادو بیانیاں اس کی اسی کا کاسۂ سر بھی اسی کا پتھر بھی لہو اسی کا لہو میں روانیاں اس کی وہ ...

    مزید پڑھیے

    جانے کب کون بچھڑ جائے خبر ہو کہ نہ ہو

    جانے کب کون بچھڑ جائے خبر ہو کہ نہ ہو آگے اک موڑ ہے کاندھوں پہ یہ سر ہو کہ نہ ہو بزم خوباں میں ذرا دیر ٹھہر جا اے دل آج کے بعد ادھر میرا گزر ہو کہ نہ ہو درد دل آج کی شب حد سے گزر جاتا ہے پھر کوئی چارہ گر زخم جگر ہو کہ نہ ہو وقت رخصت نہ یوں اشکوں میں گزارو ہمدم آؤ کچھ بات کریں پھر یہ ...

    مزید پڑھیے

    مرکز چشم ہے اب لعل و گہر کا سودا

    مرکز چشم ہے اب لعل و گہر کا سودا ننگ بازار ہوا دیدۂ تر کا سودا آج چولھے سے اٹھے گا کوئی شعلہ نہ دھواں آج لوٹا ہی نہیں لے کے وہ گھر کا سودا صاحب سر کو خبر بھی نہیں ہونے پاتی اور ہو جاتا ہے بازار میں سر کا سودا اب میسر ہے نہ صحرا نہ بیاباں کوئی لے کے جائے گا کہاں مجھ کو یہ سر کا ...

    مزید پڑھیے

    بہ احتیاط مرے پاس سے گزر بھی گیا

    بہ احتیاط مرے پاس سے گزر بھی گیا وہ بے نیاز رہا اور با خبر بھی گیا نہ تن کا ہوش رہا اور نہ جاں عزیز ہوئی وہ معرکہ تھا کہ احساس تیغ و سر بھی گیا تمہیں میں تھا وہ مگر تم نہ اس کو جان سکے اور اب تو وادئ لا سمت میں اتر بھی گیا سنبھالے بیٹھے تھے دستار دونوں ہاتھوں سے اٹھی وہ موج کہ ...

    مزید پڑھیے

    مرا ہی خوف ہر اک موڑ پر ملے ہے مجھے

    مرا ہی خوف ہر اک موڑ پر ملے ہے مجھے نواح جاں کوئی آسیب سا لگے ہے مجھے میں داستاں کی طرح ہر صدی کے ذہن میں ہوں کوئی لکھے ہے مجھے اور کوئی پڑھے ہے مجھے جو میرے قد کو اندھیروں میں چھوڑ آیا تھا شعاع زر کی طرح ساتھ لے چلے ہے مجھے میں کیا ہوں کون ہوں پہچان میں نہیں آتا جو جس کے جی میں ...

    مزید پڑھیے

    ہر سمت روشنی تھی جدھر بھی نظر اٹھی

    ہر سمت روشنی تھی جدھر بھی نظر اٹھی لیکن وہ اک نگاہ نہ جانے کدھر اٹھی یہ کون نغمہ سنج و غزل خواں گزر گیا گلشن سے جھومتی ہوئی باد سحر اٹھی وہ انتظار یار کے لمحات الاماں درد جگر بڑھا تو نظر سوئے در اٹھی افسانے آنسوؤں سے ہزاروں ابل پڑے پھر آج جو نگاہ مری بام پر اٹھی کس نے یہاں ...

    مزید پڑھیے

    دستک دیتی صرف ہوا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے

    دستک دیتی صرف ہوا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے دیر سے کوئی در پہ کھڑا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے شاخ ارماں سونی ہے تو کیا الزام بہاروں پر پھول کسی نے توڑ لیا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے ایک تغافل پروردہ تو خوگر غم ہو جاتا ہے لطف و کرم سے درد بڑھا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے آدھی رات ہے بند پڑے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    نشتر غم جو رگ جاں میں اتر جاتا ہے

    نشتر غم جو رگ جاں میں اتر جاتا ہے اور کچھ حوصلۂ‌ شوق نکھر جاتا ہے حال بیمار کا کچھ ٹھیک نہیں ہے شاید جو بھی آتا ہے دبے پاؤں گزر جاتا ہے احتیاط ان کو سر بزم نہ مل جائے نظر اور مجھے غم ہے کہ ناموس نظر جاتا ہے رہرو راہ محبت کا سہارا ہے یہی غم جو جاتا ہے تو سامان سفر جاتا ہے فتنۂ ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ حیراں ہے یہ صد رنگئ جلوہ کیا ہے

    آنکھ حیراں ہے یہ صد رنگئ جلوہ کیا ہے شہر کہتا ہے ابھی آپ نے دیکھا کیا ہے کون آیا ہے پئے‌ چارہ گری دیکھ تو لے آخر اے درد جگر تیرا ارادہ کیا ہے چھوڑ گلشن کو کسی رشک چمن زار کو دیکھ ذوق نظارہ یہاں بزم میں رکھا کیا ہے اف وہ اعضا شکنی نیند میں ڈوبی آنکھیں ذکر مے خانہ ہے کیا تشنۂ صہبا ...

    مزید پڑھیے

    دشمن جاں بھی وہی حاصل ارماں بھی وہی

    دشمن جاں بھی وہی حاصل ارماں بھی وہی غم کا ساماں بھی وہی درد کا درماں بھی وہی لطف گل گشت مگر اب وہ کہاں تیرے بغیر رنگ گلشن ہے وہی جوش بہاراں بھی وہی بعد دیوانے کے اگلی سی وہ رونق نہ رہی بزم خوباں ہے وہی شہر نگاراں بھی وہی آج تک آتش غم جان جہاں کم نہ ہوئی زخم ہیں اب بھی وہی سوزش ...

    مزید پڑھیے