دشمن جاں بھی وہی حاصل ارماں بھی وہی

دشمن جاں بھی وہی حاصل ارماں بھی وہی
غم کا ساماں بھی وہی درد کا درماں بھی وہی


لطف گل گشت مگر اب وہ کہاں تیرے بغیر
رنگ گلشن ہے وہی جوش بہاراں بھی وہی


بعد دیوانے کے اگلی سی وہ رونق نہ رہی
بزم خوباں ہے وہی شہر نگاراں بھی وہی


آج تک آتش غم جان جہاں کم نہ ہوئی
زخم ہیں اب بھی وہی سوزش پنہاں بھی وہی


خندہ بر لب جو تھے ہنگام عطائے غم دل
جانے کیا گزری نظر آئے پشیماں بھی وہی


ڈوبا جاتا ہے یہ کیوں آج دل زار شکیبؔ
بزم احباب وہی عیش کے ساماں بھی وہی