آنکھ حیراں ہے یہ صد رنگئ جلوہ کیا ہے

آنکھ حیراں ہے یہ صد رنگئ جلوہ کیا ہے
شہر کہتا ہے ابھی آپ نے دیکھا کیا ہے


کون آیا ہے پئے‌ چارہ گری دیکھ تو لے
آخر اے درد جگر تیرا ارادہ کیا ہے


چھوڑ گلشن کو کسی رشک چمن زار کو دیکھ
ذوق نظارہ یہاں بزم میں رکھا کیا ہے


اف وہ اعضا شکنی نیند میں ڈوبی آنکھیں
ذکر مے خانہ ہے کیا تشنۂ صہبا کیا ہے


یہ بھی تدبیر ہے تجدید تعلق کی شکیبؔ
پوچھئے جا کے وہ اپنے کو سمجھتا کیا ہے