جانے کب کون بچھڑ جائے خبر ہو کہ نہ ہو
جانے کب کون بچھڑ جائے خبر ہو کہ نہ ہو
آگے اک موڑ ہے کاندھوں پہ یہ سر ہو کہ نہ ہو
بزم خوباں میں ذرا دیر ٹھہر جا اے دل
آج کے بعد ادھر میرا گزر ہو کہ نہ ہو
درد دل آج کی شب حد سے گزر جاتا ہے
پھر کوئی چارہ گر زخم جگر ہو کہ نہ ہو
وقت رخصت نہ یوں اشکوں میں گزارو ہمدم
آؤ کچھ بات کریں پھر یہ سحر ہو کہ نہ ہو
آخری بار انہیں بھر کے نظر دیکھ تو لیں
ذوق نظارہ رہے پھر یہ نظر ہو کہ نہ ہو
کہہ لیں کچھ حال دل زار غنیمت ہے شکیبؔ
پھر یہ احباب کی محفل یہ نظر ہو کہ نہ ہو