مرکز چشم ہے اب لعل و گہر کا سودا
مرکز چشم ہے اب لعل و گہر کا سودا
ننگ بازار ہوا دیدۂ تر کا سودا
آج چولھے سے اٹھے گا کوئی شعلہ نہ دھواں
آج لوٹا ہی نہیں لے کے وہ گھر کا سودا
صاحب سر کو خبر بھی نہیں ہونے پاتی
اور ہو جاتا ہے بازار میں سر کا سودا
اب میسر ہے نہ صحرا نہ بیاباں کوئی
لے کے جائے گا کہاں مجھ کو یہ سر کا سودا
میرؔ جی کب کے گئے چھوڑ کے بازار شکیبؔ
پھیر کر لے چلو اب تم بھی ہنر کا سودا