ہر سمت روشنی تھی جدھر بھی نظر اٹھی

ہر سمت روشنی تھی جدھر بھی نظر اٹھی
لیکن وہ اک نگاہ نہ جانے کدھر اٹھی


یہ کون نغمہ سنج و غزل خواں گزر گیا
گلشن سے جھومتی ہوئی باد سحر اٹھی


وہ انتظار یار کے لمحات الاماں
درد جگر بڑھا تو نظر سوئے در اٹھی


افسانے آنسوؤں سے ہزاروں ابل پڑے
پھر آج جو نگاہ مری بام پر اٹھی


کس نے یہاں شکیبؔ کا افسانہ کہہ دیا
اک اجنبی نگاہ بھی اشکوں سے تر اٹھی