مرا ہی خوف ہر اک موڑ پر ملے ہے مجھے
مرا ہی خوف ہر اک موڑ پر ملے ہے مجھے
نواح جاں کوئی آسیب سا لگے ہے مجھے
میں داستاں کی طرح ہر صدی کے ذہن میں ہوں
کوئی لکھے ہے مجھے اور کوئی پڑھے ہے مجھے
جو میرے قد کو اندھیروں میں چھوڑ آیا تھا
شعاع زر کی طرح ساتھ لے چلے ہے مجھے
میں کیا ہوں کون ہوں پہچان میں نہیں آتا
جو جس کے جی میں سمائے ہے سو کہے ہے مجھے
میں تیز گام جو منزل کی سمت بڑھتا ہوں
کسی کی آبلہ پائی پکار لے ہے مجھے
جہاں نہیں ہے وہاں بھی ہیں اس کے ہنگامے
ہر اک مقام سے اس کی خبر ملے ہے مجھے
جو ایک عمر مرے روز و شب کا ساتھی تھا
کوئی بتاؤ کہ وہ شخص کیا کہے ہے مجھے
میں اپنا لحن شعاعوں کو بانٹ آیا ہوں
یہ احتساب عبث بے نوا کرے ہے مجھے
یہی لباس تو پہچان بن گیا ہے مری
یہ میرا خرقہ پارینہ ہی سجے ہے مجھے
شجر پھلا ہے تو سو ہاتھ بڑھ رہے ہیں شکیبؔ
ہر ایک شاخ پہ اپنا ہی سر لگے ہے مجھے