سماعتوں پہ گراں بے زبانیاں اس کی

سماعتوں پہ گراں بے زبانیاں اس کی
اسیر‌ دیر و حرم لا‌ مکانیاں اس کی


ہر ایک چہرے پہ بے چہرگی کے سائے ہیں
گرفت میں نہیں آتیں نشانیاں اس کی


یہ کس نے لحن سے کاٹا ہے نور کا رشتہ
کہ بے نوا ہوئیں جادو بیانیاں اس کی


اسی کا کاسۂ سر بھی اسی کا پتھر بھی
لہو اسی کا لہو میں روانیاں اس کی


وہ سیل کار جہاں تھا کہ اس کو بھول گیا
پھر آ کے مجھ کو سناؤ کہانیاں اس کی


شکیبؔ کرتا رہا وہ تو نعمتیں نازل
ہمیں سے ہو نہ سکیں قدر دانیاں اس کی