دستک دیتی صرف ہوا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
دستک دیتی صرف ہوا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
دیر سے کوئی در پہ کھڑا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
شاخ ارماں سونی ہے تو کیا الزام بہاروں پر
پھول کسی نے توڑ لیا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
ایک تغافل پروردہ تو خوگر غم ہو جاتا ہے
لطف و کرم سے درد بڑھا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
آدھی رات ہے بند پڑے ہیں شہر کے سارے دروازے
کوئی کواڑہ اب بھی کھلا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
دیس پرایا لوگ پرائے اس سے کیا ہوتا ہے شکیبؔ
تم کو کوئی ڈھونڈھ رہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے