بہ احتیاط مرے پاس سے گزر بھی گیا
بہ احتیاط مرے پاس سے گزر بھی گیا
وہ بے نیاز رہا اور با خبر بھی گیا
نہ تن کا ہوش رہا اور نہ جاں عزیز ہوئی
وہ معرکہ تھا کہ احساس تیغ و سر بھی گیا
تمہیں میں تھا وہ مگر تم نہ اس کو جان سکے
اور اب تو وادئ لا سمت میں اتر بھی گیا
سنبھالے بیٹھے تھے دستار دونوں ہاتھوں سے
اٹھی وہ موج کہ پگڑی کے ساتھ سر بھی گیا
وہ زہر آرزوئے لمس جذب کرتا رہا
کسی کو ڈس نہ سکا پھر وہ ناگ مر بھی گیا
مری انا ہی مجھے اعتماد دیتی تھی
وہ شاخ ٹوٹ گئی اور وہ ثمر بھی گیا