Shahnaz Parveen Shazi

شہناز پروین شازی

شہناز پروین شازی کے تمام مواد

3 غزل (Ghazal)

    جز ندامت ملال کیا ہوگا

    جز ندامت ملال کیا ہوگا حاصل اشتعال کیا ہوگا میں کہ خانہ بدوش ہوں مجھ کو ہجرتوں کا ملال کیا ہوگا خامشی جب کلام کرتی ہو پھر وہاں قیل و قال کیا ہوگا ایک مدت سے ہجر لاحق ہے کوئی مجھ سا نڈھال کیا ہوگا جس پہ وعدہ ہے رب کی بخشش کا قطرۂ انفعال کیا ہوگا ضد پہ آئے ہوئے ہیں اشک مرے ضبط ...

    مزید پڑھیے

    آسرا حرف دعا غم سے مفر ہونے تک

    آسرا حرف دعا غم سے مفر ہونے تک صبر بھی چاہیے اب اس میں اثر ہونے تک گر بقا کی ہے تمنا تو فنا کر خود کو بیج سہتا ہے ستم کتنے شجر ہونے تک رب کی تخلیق پہ انگشت بدنداں ہیں ملک مرحلے دیکھ لے مٹی سے بشر ہونے تک بخیہ گر چاک گریباں کی ہو تدبیر کوئی ہوں تری دست نگر اپنا ہنر ہونے تک عشق میں ...

    مزید پڑھیے

    کج ادائی کا لگ گیا دھڑکا

    کج ادائی کا لگ گیا دھڑکا نارسائی کا لگ گیا دھڑکا تب جنوں تھا کسی کو پانے کا اب جدائی کا لگ گیا دھڑکا ضبط اب آخری حدوں پر ہے لب کشائی کا لگ گیا دھڑکا بات پھیلی ہے مسکرانے سے جگ ہنسائی کا لگ گیا دھڑکا وہ تغیر پسند ہے شازیؔ بے وفائی کا لگ گیا دھڑکا

    مزید پڑھیے

9 نظم (Nazm)

    مجبوری

    سمجھنا چاہیے مجبوریاں اہل چمن کو سبز بیلوں کی نمو محتاج ہے جن کی ہمیشہ اک سہارے کی درختوں کے تنے دیوار پھاٹک یا منڈیریں ہوں پنپتی ہیں سہاروں پر تو یہ سرسبز رہتی ہیں سہارے چھوٹ جائیں گر تو پھر جینے کی مجبوری کسی نعم البدل کو ڈھونڈ لیتی ہے وگرنہ ان کی شادابی خزاں کی نذر ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    تذبذب

    مفاہمت کی حدوں سے آگے مہیب اندھیروں کے قافلے ہیں طویل وحشت کے سلسلے ہیں جو معرکہ دل نے سر کیا گر تو تیرگی دائمی مقدر خرد نے جیتا تو قطرہ قطرہ یہ زہر خود میں اتارنا ہے کہ تیسری کوئی رہ نہیں ہے سو منتظر ہوں کہ آگے قسمت میں کیا لکھا ہے مہیب اندھیرے کہ زہر خوانی

    مزید پڑھیے

    اگنی پریکشا

    کھلی ہوا اور گھٹن کے وقفے طویل تر تھے تو پھر بھی اتنے گراں نہیں تھے مگر گزشتہ کئی دنوں سے یہ وقفے گویا سمٹ چکے ہیں ابھی میں جی بھر کے لے نہ پاتی ہوں چند سانسیں حسیں فضا میں کہ پھر اسی وقفۂ گھٹن کی ثقیل دستک سماعتوں کو فگار کرتی پیام لاتی ہے موسم حبس اور گھٹن کے میں اس تسلسل سے تھک ...

    مزید پڑھیے

    بہانہ

    سنو تم کیوں نہیں کہتے مرے آنسو تمہیں تکلیف دیتے ہیں مرے دکھ سن کے تم بھی بے بسی محسوس کرتے ہو میری آواز کی لرزش تمہیں بھی خوں رلاتی ہے میرے لہجے کی نمناکی تمہیں بے چین رکھتی ہے مجھے معلوم ہے لیکن یہ سب تم کہہ نہیں سکتے اسی لمحہ تمہیں یاد آنے لگتے ہیں کئی بے حد ضروری کام اور پھر ...

    مزید پڑھیے

    سرحدیں

    کوئی تو ہو اس جہاں میں ایسا کہ جس کے بس میں ہو ساری دنیا کی سرحدوں کی سبھی لکیریں جہاں کے نقشے سے ایک پل میں کسی جتن سے مٹا کے رکھ دے یہ آہنی خار دار تاریں زمین کے ساتھ دل کے رشتے بھی بانٹتی ہیں کئی دلوں میں طویل عرصے سے چبھ رہی ہیں کوئی تو ان کو اکھاڑ پھینکے کوئی تو ہو جو تمام ...

    مزید پڑھیے

تمام