مجبوری
سمجھنا چاہیے مجبوریاں اہل چمن کو سبز بیلوں کی
نمو محتاج ہے جن کی ہمیشہ اک سہارے کی
درختوں کے تنے دیوار پھاٹک یا منڈیریں ہوں
پنپتی ہیں سہاروں پر تو یہ سرسبز رہتی ہیں
سہارے چھوٹ جائیں گر
تو پھر جینے کی مجبوری
کسی نعم البدل کو ڈھونڈ لیتی ہے
وگرنہ ان کی شادابی خزاں کی نذر ہوتی ہے
محبت انس چاہت بھی انہیں کمزور بیلوں کے مشابہ ہیں
انہیں بھی ہم نواؤں ہم نشینوں کے سہاروں کی ضرورت ہے
سہارا چھوٹ جائے
تو انہیں بھی زندہ رہنے کے لئے
نعم البدل درکار ہوتا ہے
نہیں تو بن سہارے دوستی رشتے مراسم انس چاہت اور تعلق
کی یہ کومل سبز بیلیں سب خزاں کی نظر ہوں
اور وقت سے پہلے ہی مر جائیں