سرحدیں

کوئی تو ہو اس جہاں میں ایسا
کہ جس کے بس میں ہو ساری دنیا
کی سرحدوں کی سبھی لکیریں
جہاں کے نقشے سے ایک پل میں
کسی جتن سے مٹا کے رکھ دے
یہ آہنی خار دار تاریں
زمین کے ساتھ دل کے رشتے بھی بانٹتی ہیں
کئی دلوں میں طویل عرصے سے چبھ رہی ہیں
کوئی تو ان کو اکھاڑ پھینکے
کوئی تو ہو جو تمام دنیا
کو ایک خطے کی شکل دے دے
اگر کوئی معجزہ دکھا دے
تو سارے انسان جب بھی چاہیں
پھر اپنے پیاروں سے مل سکیں گے
بغیر ویزا کی بندشوں کے
سہولتوں سے مسرتوں سے
پھر اس کے بدلے اگر وہ مجھ سے
مری متاع حیات مانگے
تو ایک پل کو بھی میں نہ سوچوں
خوشی خوشی اس کو دان کر دوں