آسرا حرف دعا غم سے مفر ہونے تک

آسرا حرف دعا غم سے مفر ہونے تک
صبر بھی چاہیے اب اس میں اثر ہونے تک


گر بقا کی ہے تمنا تو فنا کر خود کو
بیج سہتا ہے ستم کتنے شجر ہونے تک


رب کی تخلیق پہ انگشت بدنداں ہیں ملک
مرحلے دیکھ لے مٹی سے بشر ہونے تک


بخیہ گر چاک گریباں کی ہو تدبیر کوئی
ہوں تری دست نگر اپنا ہنر ہونے تک


عشق میں بر سر پیکار خرد اور جنوں
مرگ بے موت ہے اب معرکہ سر ہونے تک


وہ تری یاد کے آنسو تھے جو بہنے نہ دئے
چشم ویراں میں رکے شہر بدر ہونے تک


میں بھی بن جاؤں شب غم کوئی ننھا بچہ
جو کہ کھو جاتا ہے خوابوں میں سحر ہونے تک


تھے جگر قلب و نظر زاد سفر جب شازیؔ
خوف تنہائی تھا کیوں اذن سفر ہونے تک