پھر کبھی خواب نہ آئے وہ سہانے والے
پھر کبھی خواب نہ آئے وہ سہانے والے
میں سمجھتی تھی کہ پھر آئیں گے جانے والے
گھر سے نکلے تو ملا اجنبی چہروں کا ہجوم
جھڑ گئے پھول بھی شاخوں سے پرانے والے
ہم ہیں ٹوٹی ہوئی اک شاخ گل زرد مگر
ہم کو گلدان میں رکھیں گے زمانے والے
ہم کوئی چاند ستارے ہیں فلک پر چمکیں
ہم وہ آنسو ہیں جو مٹی میں سمانے والے
تن کی مٹی بھی تو ہم راہ نہیں لے کے گئے
کون سی سمت کو جاتے ہیں یہ جانے والے
کیسے دروازے ہیں دستک نہیں ہوتی جن پر
جن سے رخصت ہوئے پردیس بسانے والے
اب کے برسات بھی بارش کو ترستے گزری
کھل کے رو بھی نہ سکے ہنسنے ہنسانے والے
اب مرے دل پہ کوئی نقش کوئی نام کہاں
لکھنے والے نہ رہے اور نہ مٹانے والے
کتنے ہی لوگ گھروں کو نہیں لوٹے ہیں سحرؔ
ہم بھی جائیں گے تو واپس نہیں آنے والے