ریت سے آندھیوں کا جھگڑا تھا
ریت سے آندھیوں کا جھگڑا تھا
سانس در سانس دم الجھتا تھا
وہ اکیلا ہی بھیڑ جیسا تھا
وہ مرے چاروں اور چلتا تھا
کھیل کھیلا چھپن چھپائی کا
چھپنے والا کبھی نہ ملتا تھا
اس برس ڈھ گئی ہیں دیواریں
پچھلی بارش میں مور ناچا تھا
سرخ جوڑا خرید لائی ماں
جانے کن لکڑیوں میں جلنا تھا
رات آنسو پہن کے بیٹھ گئی
چاند چپ چاپ تکتا جاتا تھا
میں نے لکنت عبور کر لی تھی
ان کہی بات کو سمجھ لیا تھا
زندگی بک رہی تھی ٹھیلے پر
ٹھیلے والا کہیں چلا گیا تھا
کالی چادر مجھے عزیز رہی
میرا دکھ سکھ اسی میں لپٹا تھا
اس کو صورت بدلتے دیکھا تھا
جو مرے سارے دکھ سمجھتا تھا