بے ثمر موسموں میں جنمی ہوں

بے ثمر موسموں میں جنمی ہوں
زرد پتوں کا دکھ سمجھتی ہوں


رفتگاں بھید اوڑھ لیتے ہیں
اپنے ابا کی قبر ڈھونڈھتی ہوں


میرا بچپن بچھڑ گیا مجھ سے
اک سہیلی سے روٹھ بیٹھی ہوں


خامشی کی گپھاؤں میں اکثر
اپنی آواز سن کے سہمی ہوں


گھر کی دیوار میں ہی رہتا ہے
ایک سائے سے ڈرتی رہتی ہوں


مجھ کو بارش عزیز ہے لیکن
کھڑکیاں بند کر کے روتی ہوں


خواب ہیں یا خیال کی دنیا
رفتگاں کے قریب رہتی ہوں


وہ جو اک بے وفا کی خاطر تھے
اب انہی آنسوؤں پہ ہنستی ہوں


آپ ہی اپنی ماں رہی ہوں سحرؔ
ماں ہی جیسی دکھائی دیتی ہوں