کانوں میں ناچتی تھی کسی بانسری کی لہر
کانوں میں ناچتی تھی کسی بانسری کی لہر
آنچل میں بھر کے لائے تھے ہم چاندنی کی لہر
پھر تیر کس رہا تھا مرے دل کی سیدھ میں
تاراج کر گئی مجھے شرمندگی کی لہر
دریا کو کس کے ہجر نے پامال کر دیا
پھر چاند رات میں اٹھی دیوانگی کی لہر
پتھر تراشتے تھے تری صورتوں کے ہم
اور سر میں جاگتی تھی تری بندگی کی لہر
پھر ہجر زندگی میں قرینے سے آ گیا
مسکان میں دبی رہی افسردگی کی لہر
کچھ عشق میری فہم سے آگے گزر گیا
کچھ خاک میں بکھرتی گئی زندگی کی لہر
یہ زندگی دھنک سی کھلی اور بجھ گئی
پیچھے تھی ایک مٹتی ہوئی رخصتی کی لہر
بستر لگا گئے ہیں اندھیرے مکان میں
شاید سحرؔ یہیں ہو کہیں روشنی کی لہر