یہ دستک اور یہ در میرا نہیں ہے
یہ دستک اور یہ در میرا نہیں ہے
اب اس بستی میں گھر میرا نہیں
سفر ہے اور ہی درپیش مجھ کو
یہ مشت خاک گھر میرا نہیں ہے
میں کس بارود میں بکھری پڑی ہوں
یہ دھڑ میرا ہے سر میرا نہیں ہے
مجھے میرے حوالے کر گیا ہے
تو کیا ہے وہ اگر میرا نہیں ہے
یہ کس آنگن میں جھکتا جا رہا ہے
شجر میرا ہے گھر میرا نہیں ہے
سفر ہے خواب میں صحرائے جاں کا
مگر وہ ہم سفر میرا نہیں ہے
میں کیوں اس کی کہانی بن گئی ہوں
اگر وہ حرف گر میرا نہیں ہے
عجب سی آنچ دل تک آ رہی ہے
یہ شوریدہ شرر میرا نہیں ہے
شب سجدہ جبیں پر جم گیا کیا
یہ داغ عشق گر میرا نہیں ہے
عروس شام روتی پھر رہی ہے
یہ آنسو چشم تر میرا نہیں ہے
جو میرے ساتھ چلتا جا رہا ہے
وہ سایہ ہے مگر میرا نہیں ہے
سحرؔ یہ اور ہی دنیا ہے کوئی
یہاں کوئی بھی ڈر میرا نہیں ہے