ندی کو روک سکی تو ڈھلان باندھوں گی

ندی کو روک سکی تو ڈھلان باندھوں گی
میں اپنی ناؤ پہ خود بادبان باندھوں گی
یہ ابر برسا تو دھرتی غروب کر دے گا
میں اپنی اوڑھنی میں آسمان باندھوں گی
میں گر گئی تری دستار کو سنبھالنے میں
روایتوں کو میں شایان شان باندھوں گی
وہ میرے گھر کی ہر اک چیز توڑ دیتا ہے
میں دل سے درد کی بوجھل چٹان باندھوں گی
مکان گرنے کو ہے میں اسے بچا لوں گی
اور اس پہ گزری ہوئی داستان باندھوں گی
چہک پرندے کی کلکار ننھے بچے کی
میں ان کے دم سے نیا اک جہان باندھوں گی
مجھے نجات دلا دے جو میرے زنداں سے
نئے سفر کے لیے جسم و جان باندھوں گی
جڑی رہوں گی اسی سے زمین ماں ہے مری
میں تتلیوں کی سی دھیمی اڑان باندھوں گی