Shahid Siddiqui

شاہد صدیقی

شاہد صدیقی کی غزل

    یہ کیوں کہوں کہ انہیں حال دل سنا نہ سکا

    یہ کیوں کہوں کہ انہیں حال دل سنا نہ سکا نظر میں تھا وہ فسانہ جو لب تک آ نہ سکا مجھے کبھی خلش دل کا لطف آ نہ سکا نظر اٹھی بھی تو ان سے نظر ملا نہ سکا گناہ گار محبت کو سب نے بخش دیا کہ یہ گناہ کسی کی سمجھ میں آ نہ سکا مرے خیال میں تخلیق دل کا راز یہ ہے کہ عشق وسعت کونین میں سما نہ ...

    مزید پڑھیے

    دل نے یوں حوصلۂ نالہ و فریاد کیا

    دل نے یوں حوصلۂ نالہ و فریاد کیا میں یہ سمجھا شب غم تم نے کچھ ارشاد کیا جبر فطرت نے یہ اچھا کرم ایجاد کیا کہ مجھے وسعت زنجیر تک آزاد کیا تم نہ تھے دل میں تو ویراں تھی کہانی میری عشق نے لفظ کو مفہوم سے آباد کیا تیرا انداز تبسم ہے کہ عنوان بہار جب کوئی پھول کھلا میں نے تجھے یاد ...

    مزید پڑھیے

    نئی زندگی کی ہوا چلی تو کئی نقاب اتر گئے

    نئی زندگی کی ہوا چلی تو کئی نقاب اتر گئے جنہیں انقلاب سے پیار تھا وہی انقلاب سے ڈر گئے مجھے رہبروں سے ہے یہ گلہ کہ انہیں شعور سفر نہ تھا کبھی راستوں میں الجھ گئے کبھی منزلوں سے گزر گئے تجھے مرگ نو کی تلاش ہے مگر ارتقا کا پتہ نہیں کوئی ایک شکل جو مٹ گئی تو ہزار نقش ابھر گئے جسے ...

    مزید پڑھیے

    میں جہاں بھی ہوں وہیں انجمن آرائی ہے

    میں جہاں بھی ہوں وہیں انجمن آرائی ہے کہ مرے ساتھ مرا عالم تنہائی ہے حسرت آہ بھی توہین شکیبائی ہے کیا مرے درد کا مفہوم ہی رسوائی ہے نہ تجلی نہ کوئی انجمن آرائی ہے زندگی ایک مسلسل شب تنہائی ہے موت ہے قیمت ہستی کوئی انعام نہیں جان دی ہے تو حیات ابدی پائی ہے ڈھونڈھتے پھرتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    وفا کی راہ سے مستانہ وار ہم گزرے

    وفا کی راہ سے مستانہ وار ہم گزرے ہزار منزلیں آئیں ہزار غم گزرے حیات سلسلۂ غم سہی مگر اے دوست خیال میں ہیں وہی حادثے جو کم گزرے خوشی کے پھول کھلائے تھے اس نظر نے جہاں ہم اس دیار سے اکثر بہ چشم نم گزرے ستم زدہ سی ہے دنیا تمہارے جانے سے کہیں تو کس سے کہیں ہم پہ کیا ستم گزرے کھڑے ...

    مزید پڑھیے

    ممکن نہیں کہ فیض جنوں رائیگاں رہے

    ممکن نہیں کہ فیض جنوں رائیگاں رہے یہ بھی تو اک نشاں ہے کہ ہم بے نشاں رہے عاجز تری تلاش میں کون و مکاں رہے اب جو تجھے تلاش کرے وہ کہاں رہے بے واسطہ نظارۂ شان جمال کر یہ بھی ہے اک خطا کہ نظر درمیاں رہے توفیق دے کہ پیش کروں غم کو اس طرح دنیا کو میرے غم پہ خوشی کا گماں رہے شام ان کی ...

    مزید پڑھیے

    بقدر شوق مزا اضطراب کا نہ ملا

    بقدر شوق مزا اضطراب کا نہ ملا کہ دل کو درد ملا بھی تو لا دوا نہ ملا کہاں پہنچ کے ہوا ہے ملال گمشدگی یہ سن رہا ہوں کہ ان کو مرا پتا نہ ملا مزا ملا تھا محبت کی ابتدا میں مگر پھر اس کے بعد اذیت ملی مزا نہ ملا بہت قریب تھی سرحد بے خودی لیکن خودی کی حد میں بھٹکتے رہے خدا نہ ملا جبین ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی یاد آفت ڈھا رہی ہے

    کسی کی یاد آفت ڈھا رہی ہے طبیعت خود بخود گھبرا رہی ہے چلا ہوں اس نظر کی جستجو میں جہاں دل ہے وہ منزل آ رہی ہے محبت کو نہیں سمجھی ہے اب تک مگر دنیا ہمیں سمجھا رہی ہے یہی ہے کیا محبت کا زمانہ زمانے پر اداسی چھا رہی ہے انہیں جی بھر کے اب دیکھیں گے شاہدؔ یہ سنتے ہیں قیامت آ رہی ہے

    مزید پڑھیے

    گزر جا راہ و منزل سے گزر جا موج و ساحل سے

    گزر جا راہ و منزل سے گزر جا موج و ساحل سے محبت ہو تو یہ آسانیاں ملتی ہیں مشکل سے مقابل ہو گیا نادان ان کے حسن کامل سے ہمیں اب تنگ آ کر ہاتھ اٹھانا ہی پڑا دل سے دل ان کی راہ میں ہے پھر بھی غم جاتا نہیں دل سے محبت کا مسافر بے خبر ہے اپنی منزل سے تم اہل دل نہیں ہو پھر وفا کا لطف کیا ...

    مزید پڑھیے

    سحر ہوتے ہی اہل انجمن کو نیند سی آئی

    سحر ہوتے ہی اہل انجمن کو نیند سی آئی اندھیرے اور گہرے ہو گئے جب روشنی آئی دم سیر چمن اکثر یہ منظر ہم نے دیکھا ہے جدھر تم تھے ادھر پھولوں کے رخ پر تازگی آئی سوائے شورش پرواز سب کچھ ہے گلستاں میں بہار آئی مگر اک دام پھیلاتی ہوئی آئی ابھی تک موت سے ملتا ہوا اک نشہ طاری تھا تم آئے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2