دل نے یوں حوصلۂ نالہ و فریاد کیا

دل نے یوں حوصلۂ نالہ و فریاد کیا
میں یہ سمجھا شب غم تم نے کچھ ارشاد کیا


جبر فطرت نے یہ اچھا کرم ایجاد کیا
کہ مجھے وسعت زنجیر تک آزاد کیا


تم نہ تھے دل میں تو ویراں تھی کہانی میری
عشق نے لفظ کو مفہوم سے آباد کیا


تیرا انداز تبسم ہے کہ عنوان بہار
جب کوئی پھول کھلا میں نے تجھے یاد کیا


جھلملانے لگی لو شمع کی گل مرجھائے
ہم نے جب بزم میں ذکر دل ناشاد کیا


انتہائے غم فرقت میں وہ دن بھی آئے
میں تجھے بھول گیا تو نے مجھے یاد کیا


امتیاز کرم و جور سے محروم ہیں سب
تو نے جس دل کو مٹایا اسے آباد کیا


تھا اسیری میں ہمیں صرف گلستاں کا خیال
چھوٹ کر آئے تو زنداں کو بہت یاد آیا


کون سمجھے گا مرا عالم رندی شاہدؔ
جب کہیں جی نہ لگا میکدہ آباد کیا