بقدر شوق مزا اضطراب کا نہ ملا

بقدر شوق مزا اضطراب کا نہ ملا
کہ دل کو درد ملا بھی تو لا دوا نہ ملا


کہاں پہنچ کے ہوا ہے ملال گمشدگی
یہ سن رہا ہوں کہ ان کو مرا پتا نہ ملا


مزا ملا تھا محبت کی ابتدا میں مگر
پھر اس کے بعد اذیت ملی مزا نہ ملا


بہت قریب تھی سرحد بے خودی لیکن
خودی کی حد میں بھٹکتے رہے خدا نہ ملا


جبین شوق میں سجدے تھے انقلاب انگیز
مگر یہ خیر ہوئی ان کا نقش پا نہ ملا


حیات عشق کو دیدار حسن لازم ہے
ترے بغیر کسی سانس میں مزا نہ ملا


تلاش حسن تو ہے ہمت آزما شاہدؔ
مری نگاہ کو اب تک مرا پتا نہ ملا