ممکن نہیں کہ فیض جنوں رائیگاں رہے

ممکن نہیں کہ فیض جنوں رائیگاں رہے
یہ بھی تو اک نشاں ہے کہ ہم بے نشاں رہے


عاجز تری تلاش میں کون و مکاں رہے
اب جو تجھے تلاش کرے وہ کہاں رہے


بے واسطہ نظارۂ شان جمال کر
یہ بھی ہے اک خطا کہ نظر درمیاں رہے


توفیق دے کہ پیش کروں غم کو اس طرح
دنیا کو میرے غم پہ خوشی کا گماں رہے


شام ان کی اک ادا ہے سحر ان کا ایک نور
یعنی کہ وہ عیاں نہ ہوئے اور عیاں رہے


بخشا ہے مجھ کو ان کی نظر نے زہے کرم
وہ ہوش جس پہ بے خبری کا گماں رہے


شوق سخن فضول ہے شاہدؔ بغیر عشق
دل میں کوئی خلش ہو تو منہ میں زباں رہے