Shahid Siddiqui

شاہد صدیقی

شاہد صدیقی کی غزل

    یہ عالم ہے تو پھر کیوں ہوں حوادث سے پریشاں ہم

    یہ عالم ہے تو پھر کیوں ہوں حوادث سے پریشاں ہم قفس ہم آشیاں ہم خار ہم گل ہم گلستاں ہم ہمیں دنیا کی طوفانی ہواؤں میں بھڑکنے دو نہیں ہوں گے نہیں ہوں گے چراغ زیر داماں ہم مزا پایا ہے اتنا مشکلات زندگانی میں کہ دیکھے جائیں گے تا حشر یہ خواب پریشاں ہم زمانہ ہم کو طوفاں میں پھنسا کر ...

    مزید پڑھیے

    دل ہے ایک ہی لیکن نام دل بدلتا ہے

    دل ہے ایک ہی لیکن نام دل بدلتا ہے سج گیا تو گلشن ہے لٹ گیا تو صحرا ہے میرا درد محرومی اک نیا تقاضا ہے عشق رائیگاں کیوں ہو تم نہیں تو دنیا ہے حسن ہے بہاریں ہیں شوق ہے تماشا ہے عاشقی کی نسبت سے زندگی گوارا ہے درد و غم کی راہوں میں ساتھ چھوڑنا کیسا دور تک چلے آؤ دور تک اندھیرا ...

    مزید پڑھیے

    پھر تلاش راحت میں درد کا پیام آیا

    پھر تلاش راحت میں درد کا پیام آیا ہم جہاں سے گزرے تھے پھر وہی مقام آیا تیرے غم کی راہوں میں وہ بھی اک مقام آیا موت کی تمنا تھی موت کا سلام آیا شب گزارنے والو حاصل سحر کیا تھا اک پیام بیداری وہ بھی نا تمام آیا یوں عروج پر آئی داستاں محبت کی دل کا ذکر چھیڑا تھا لب پہ ان کا نام ...

    مزید پڑھیے

    کبھی خرد کا کبھی عشق کا بہانا تھا

    کبھی خرد کا کبھی عشق کا بہانا تھا مری حیات کا مقصد فریب کھانا تھا تری نگاہ کو گہرائیوں میں جانا تھا مرے سکوت کی ہر تہہ میں اک فسانا تھا چمن کے ایک ہی گوشے میں ہے ہجوم بہار یہ وہ جگہ ہے جہاں میرا آشیانہ تھا خزاں کا خوف تھا غنچوں کو فصل گل میں مگر وہ مسکرا کے رہے جن کو مسکرانا ...

    مزید پڑھیے

    مری آرزو نئے روپ بھر کے ہزار پھول کھلائے گی

    مری آرزو نئے روپ بھر کے ہزار پھول کھلائے گی مجھے اپنے باغ سے عشق ہے تو کبھی بہار بھی آئے گی مرے ساتھیوں نے قدم قدم پہ دئے بجھا بھی دئے تو کیا نئے راستوں میں نئی امنگ نئے چراغ جلائے گی مرے غم پہ طعنہ زنی نہ کر میں نہیں ہوں منکر سر خوشی ابھی سوگوار ہے زندگی کبھی گا سکے گی تو گائے ...

    مزید پڑھیے

    لذت گریہ سے بھی دل کی خلش کم تو نہیں

    لذت گریہ سے بھی دل کی خلش کم تو نہیں اشک گوہر ہی سہی زخم کا مرہم تو نہیں یہ بھی ممکن ہے غم ہجر غم دہر بنے مشکلیں عشق کی سنگ رہ آدم تو نہیں غم عطا کرکے نہ سمجھو کہ مجھے شاد کیا دل میں سب کچھ ہے مگر حوصلۂ غم تو نہیں کارواں اور چلے اور چلے اور چلے رہنما صاحب منزل ہے مگر ہم تو ...

    مزید پڑھیے

    اے عشق بے نیاز یہ کیا انقلاب ہے

    اے عشق بے نیاز یہ کیا انقلاب ہے غم کامیاب ہے نہ خوشی کامیاب ہے مستی میں ہر فریب خرد بے نقاب ہے اس وقت جو گناہ بھی کیجے ثواب ہے فکر مآل عشق نہ کی ہم نے عشق میں معلوم تھا کہ خواب ہی تعبیر خواب ہے رسوائیاں ہیں عشق کی معراج زندگی یہ تم نے کیا کہا کہ زمانہ خراب ہے غم پر اثر نہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    اے باغباں یہ جبر ہے یا اختیار ہے

    اے باغباں یہ جبر ہے یا اختیار ہے مرجھا رہے ہیں پھول چمن میں بہار ہے شاید اسی کا نام غم روزگار ہے وہ مل گئے تو اور بھی دل بے قرار ہے میں صاحب چمن ہوں مجھے اعتبار ہے شام خزاں کے بعد ہی صبح بہار ہے رہبر نے قافلے ہی کو مجبور کہہ دیا اب وہ قدم بڑھائے جسے اختیار ہے کلیاں ہیں زرد زرد ...

    مزید پڑھیے

    تڑپ الم میں نہیں ہے سکوں خوشی میں نہیں

    تڑپ الم میں نہیں ہے سکوں خوشی میں نہیں بہت دنوں سے کوئی لطف زندگی میں نہیں اگر یہ سچ ہے تو لازم ہے خود فراموشی خود آگہی کے سوا کچھ خود آگہی میں نہیں جمی ہوئی ہے شب ہجر آسماں پہ نظر تری جھلک تو ستاروں کی روشنی میں نہیں جو اہل دل ہو تو مفہوم خامشی سمجھو یہ کیا کہا کوئی مفہوم خامشی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2