وفا کی راہ سے مستانہ وار ہم گزرے
وفا کی راہ سے مستانہ وار ہم گزرے
ہزار منزلیں آئیں ہزار غم گزرے
حیات سلسلۂ غم سہی مگر اے دوست
خیال میں ہیں وہی حادثے جو کم گزرے
خوشی کے پھول کھلائے تھے اس نظر نے جہاں
ہم اس دیار سے اکثر بہ چشم نم گزرے
ستم زدہ سی ہے دنیا تمہارے جانے سے
کہیں تو کس سے کہیں ہم پہ کیا ستم گزرے
کھڑے ہیں دیر سے ہم درمیان کعبہ و دیر
ادھر سے کاش کوئی صاحب کرم گزرے
بہت ہجوم سہی ان کی راہ میں لیکن
وہاں تو کوئی نہیں تھا جہاں سے ہم گزرے
نشان منزل جاناں تو مل گیا شاہدؔ
مگر یہ غم ہے کہ راہوں کے پیچ و خم گزرے