نئی زندگی کی ہوا چلی تو کئی نقاب اتر گئے

نئی زندگی کی ہوا چلی تو کئی نقاب اتر گئے
جنہیں انقلاب سے پیار تھا وہی انقلاب سے ڈر گئے


مجھے رہبروں سے ہے یہ گلہ کہ انہیں شعور سفر نہ تھا
کبھی راستوں میں الجھ گئے کبھی منزلوں سے گزر گئے


تجھے مرگ نو کی تلاش ہے مگر ارتقا کا پتہ نہیں
کوئی ایک شکل جو مٹ گئی تو ہزار نقش ابھر گئے


جسے جستجوئے سکوں رہی اسے ساحلوں نے ڈبو دیا
انہیں کوئی موج نہ چھو سکی جو تڑپ کے پار اتر گئے


غم عشق نے غم کائنات میں ایک روح سی پھونک دی
مرے راگ اور سنور گئے مرے گیت اور نکھر گئے