سحر ہوتے ہی اہل انجمن کو نیند سی آئی
سحر ہوتے ہی اہل انجمن کو نیند سی آئی
اندھیرے اور گہرے ہو گئے جب روشنی آئی
دم سیر چمن اکثر یہ منظر ہم نے دیکھا ہے
جدھر تم تھے ادھر پھولوں کے رخ پر تازگی آئی
سوائے شورش پرواز سب کچھ ہے گلستاں میں
بہار آئی مگر اک دام پھیلاتی ہوئی آئی
ابھی تک موت سے ملتا ہوا اک نشہ طاری تھا
تم آئے زندگی کا ہوش آیا زندگی آئی
میں ترک عشق پر نازاں تھا لیکن واقعہ یہ ہے
کہ آج ان کا خیال آیا تو اپنی یاد بھی آئی
سبب کچھ اور تھا میری مسلسل تشنہ کامی کا
میں یہ سمجھا کہ ساقی کی توجہ میں کمی آئی
اندھیرے میں ہیں کتنے تشنگان میکدہ شاہدؔ
جہاں تک دور جام آیا وہیں تک روشنی آئی