Shahid Ishqi

شاہد عشقی

شاہد عشقی کی غزل

    پھر اسی شوخ کی تصویر اتر آئی ہے

    پھر اسی شوخ کی تصویر اتر آئی ہے مرے اشعار میں مضمر مری رسوائی ہے دیکھنے دیتا نہیں دور تلک دل کا غبار جس سے ملئے وہ خود اپنا ہی تماشائی ہے شہر میں نکلو تو ہنگامہ کہ ہر ذات ہو گم ذات میں اترو تو اک عالم تنہائی ہے زخم ہر سنگ ہے اس دست حنا کا ہم رنگ خوب اس شوخ کا انداز پذیرائی ہے دل ...

    مزید پڑھیے

    نہ خدا ہے نہ ناخدا ہے کوئی

    نہ خدا ہے نہ ناخدا ہے کوئی زندگی گویا سانحہ ہے کوئی نہ تو بے قفل ہے دریچۂ ذہن نہ در دل کھلا ہوا ہے کوئی نہ مزا گمرہی میں ملتا ہے نہ سنبھلنے کا راستہ ہے کوئی میں کہ تنہا تھا اب بھی تنہا ہوں پھر بھی مجھ سے بچھڑ گیا ہے کوئی ذات مت دیکھ کرب ذات کو دیکھ کیسے اندر سے ٹوٹتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    مہتاب ہے نہ عکس رخ یار اب کوئی

    مہتاب ہے نہ عکس رخ یار اب کوئی کاٹے تو کس طرح یہ شب تار اب کوئی ممکن ہے دست و بازوئے قاتل تو تھک بھی جائے شاید تھمے نہ دیدۂ خونبار اب کوئی اہل جفا سے کہنا تراشیں صلیب و دار شایان سر‌و قامت دل دار اب کوئی ہر عہد میں اگرچہ رہا جرم حرف حق شاید نہ آئے ہم سا گنہ گار اب کوئی ہاں اے ...

    مزید پڑھیے

    لذت سنگ نہ پوچھو لوگو عمر اگر ہاتھ آئے پھر

    لذت سنگ نہ پوچھو لوگو عمر اگر ہاتھ آئے پھر مجنوں بن کر صحرا صحرا کوئی اسے گنوائے پھر ہم نے تو اس ایک آس پر سارے دیپ جلائے پھر رات کبھی ساتھ آئے کسی کے شاید اور نہ جائے پھر یوں بھی اپنا عہد جوانی خواب تھا دل کش چہروں کا اور غبار وقت نے تو وہ چہرے بھی دھندلائے پھر سب کے اپنے اپنے ...

    مزید پڑھیے

    غیر کی آگ میں کوئی بھی نہ جلنا چاہے

    غیر کی آگ میں کوئی بھی نہ جلنا چاہے ایک پروانہ جو یہ ریت بدلنا چاہے دل کہ ہر گہرے سمندر میں اترنا چاہے تیز رو عمر کہ دم بھر نہ ٹھہرنا چاہے قسمت ایسی کہ جو اپنے تھے ہوئے بیگانے اور دل وہ جو کسی سے نہ بچھڑنا چاہے ذرہ ذرہ جسے اک عمر سمیٹا ہے وہ ذات صرف اک ٹھیس پہنچنے پہ بکھرنا ...

    مزید پڑھیے

    دیئے ہیں رنج سارے آگہی نے

    دیئے ہیں رنج سارے آگہی نے اندھیرے میں رکھا ہے روشنی نے مری راہوں میں جتنے پیچ و خم ہیں یہ سب بخشے ہیں تیری سادگی نے جہاں ہر آشنا ہے سنگ در دست کوئی پتھر نہ مارا اجنبی نے حساب دوستاں در دل بھی کیوں ہو کسی کو کیا دیا آخر کسی نے اندھیروں میں پناہیں ڈھونڈھتا ہوں دیئے ہیں زخم اتنے ...

    مزید پڑھیے

    مرے قریب سے گزرا اک اجنبی کی طرح

    مرے قریب سے گزرا اک اجنبی کی طرح وہ کج ادا جو ملا بھی تو زندگی کی طرح ملا نہ تھا تو گماں اس پہ تھا فرشتوں کا جو اب ملا ہے تو لگتا ہے آدمی کی طرح کرن کرن اتر آئی ہے روزن دل سے کسی حسیں کی تمنا بھی روشنی کی طرح مری نگاہ سے دیکھو تو ہم زباں ہو جاؤ کہ دشمنی بھی کسی کی ہے دوستی کی ...

    مزید پڑھیے

    مبتلا روح کے عذاب میں ہوں (ردیف .. ی)

    مبتلا روح کے عذاب میں ہوں کب سے دل کو کھرچ رہا ہے کوئی جانے کس صبح کی تمنا میں رات بھر شمع ساں جلا ہے کوئی فرصت زندگی بہت کم ہے اور بہت دیر آشنا ہے کوئی تم بھی سچے ہو میں بھی سچا ہوں کب یہاں جھوٹ بولتا ہے کوئی

    مزید پڑھیے

    ہر مرگ آرزو کا نشاں دیر تک رہا

    ہر مرگ آرزو کا نشاں دیر تک رہا جب شمع گل ہوئی تو دھواں دیر تک رہا وہ وقت ہائے سوئے حرم جب چلے تھے ہم دامان کش خیال بتاں دیر تک رہا کلیاں اداس پھول فسردہ صبا خموش اب کے چمن پہ رنگ خزاں دیر تک رہا مدت گزر چکی پہ خوشا لذت وصال ہر ماہ وش پہ اس کا گماں دیر تک رہا دار و رسن کا ذکر چھڑا ...

    مزید پڑھیے

    لطف سے تیرے سوا درد مہک جاتا ہے

    لطف سے تیرے سوا درد مہک جاتا ہے یہ وہ شعلہ ہے بجھاؤ تو بھڑک جاتا ہے اک زمانے کو رکھا تیرے تعلق سے عزیز سلسلہ دل کا بہت دور تلک جاتا ہے تم مرے ساتھ چلے ہو تو مرے ساتھ رہو کہ مسافر سر منزل بھی بھٹک جاتا ہے ہم تو وہ ہیں ترے وعدہ پہ بھی جی سکتے ہیں غنچہ پیغام صبا سے بھی چٹک جاتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3