Shahid Ishqi

شاہد عشقی

شاہد عشقی کی غزل

    موت کا کیوں کر اعتبار آئے

    موت کا کیوں کر اعتبار آئے کہ شب غم بھی ہم گزار آئے کسی حیلے کسی بہانے ہم کوئے جاناں میں بار بار آئے ایک خوئے وفا کے رشتے سے یاد کتنے ستم شعار آئے کس کو ہوتی نہیں ہے جان عزیز ہم مگر پھر بھی سوئے دار آئے ان سے ترک وفا کریں کیوں کر جن پہ بے اختیار پیار آئے

    مزید پڑھیے

    وہ حرف شوق ہوں جس کا کوئی سیاق نہ ہو

    وہ حرف شوق ہوں جس کا کوئی سیاق نہ ہو سمجھ سکو نہ اگر عشق کا مراق نہ ہو ترے فراق سے مانوس ہو کے سوچتا ہوں تری وفا کی طرح یہ بھی اک مذاق نہ ہو جدا نہ ہوں جنہیں یارانہ ہو جدائی کا ملیں نہ وہ جنہیں ملنے کا اشتیاق نہ ہو ہزار شوق ترا کم ہو پر خدا نہ دکھائے وہ دن کہ تیری جدائی بھی دل پہ ...

    مزید پڑھیے

    سینے ہیں چاک اور گریباں سلے ہوئے

    سینے ہیں چاک اور گریباں سلے ہوئے طوفاں ہیں سطح آب کے نیچے چھپے ہوئے اک عمر مختصر بھی گزاری نہیں گئی صدیاں اگرچہ گزری ہیں دکھ جھیلتے ہوئے رنج شکستہ پائی ہے اک زاد راہ شوق اور عمر ہونے آئی ہے گھر سے چلے ہوئے کب فیض پا سکا کوئی شاخ بریدہ سے کچھ پھول شاخ پر ہیں ابھی تک لگے ...

    مزید پڑھیے

    چراغ زیست کے دونوں سرے جلاؤ مت

    چراغ زیست کے دونوں سرے جلاؤ مت اگر جلاؤ تو لو اس قدر بڑھاؤ مت اس آرزو میں کہ زندہ اٹھا لیے جاؤ خود اپنے دوش پہ اپنی صلیب اٹھاؤ مت سلگ رہا ہے جو دل وہ بھڑک بھی سکتا ہے قریب آؤ پر اتنے قریب آؤ مت جو زخم کھائے ہیں ان کو سدا عزیز رکھو جو تم کو بھول گیا ہو اسے بھلاؤ مت جہاں میں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    رات بھی باقی ہے صہبا بھی شیشہ بھی پیمانہ بھی

    رات بھی باقی ہے صہبا بھی شیشہ بھی پیمانہ بھی ایسے میں کیوں چھیڑ نہ دیں ہم ذکر غم جانانہ بھی بستی میں ہر اک رہتا ہے اپنا بھی بیگانہ بھی حال کسی نے پوچھا دل کا درد کسی نے جانا بھی ہائے تجاہل آج ہمیں سے پوچھ رہے ہیں اہل خرد سنتے ہیں اس شہر میں رہتا ہے کوئی دیوانہ بھی آخر صف تک آتے ...

    مزید پڑھیے

    لب تک جو نہ آیا تھا وہی حرف رسا تھا

    لب تک جو نہ آیا تھا وہی حرف رسا تھا جس کو نہ میں سمجھا تھا وہی میرا خدا تھا میں دست صبا بن کے اسے چھیڑ رہا تھا وہ غنچۂ نو رس تھا ابھی تک نہ کھلا تھا پتھر کی طرح پھول مرے سر پہ لگا تھا اس وقت سبھی روئے تھے میں صرف ہنسا تھا اترا تھا رگ و پے میں مرے زہر کے مانند وہ درد کی صورت مرے پہلو ...

    مزید پڑھیے

    نقوش رہ گزر شوق سب مٹا دینا

    نقوش رہ گزر شوق سب مٹا دینا رہی ہے جاں سو اسے بھی کہیں گنوا دینا رہ حیات میں ہر موڑ پر ہے اک الجھن بچھڑ نہ جاؤں کہیں دوستو صدا دینا غبار وقت نے دھندلا دیئے ہیں اس کے نقوش ذرا چراغ محبت کی لو بڑھا دینا سنا ہے شہر میں پھر آ گیا ہے وہ قاتل ملے تو دوستو میرا پتہ بتا دینا طلب تو کرنا ...

    مزید پڑھیے

    صبح طرب میری آنکھوں میں خواب کئی لہرائے تھے

    صبح طرب میری آنکھوں میں خواب کئی لہرائے تھے شام الم کے ساتھی لیکن بڑھتے پھیلتے سائے تھے ایک تمہارے پیار کی خاطر جگ کے دکھ اپنائے تھے ہم نے اپنے ایک دیپ سے کتنے دیپ جلائے تھے صرف جوانی کے کچھ دن ہی عمر کا حاصل ہوتے ہیں اور جوانی کے یہ دن بھی ہم کو راس نہ آئے تھے حسن کو ہم نے امر ...

    مزید پڑھیے

    جس کو چاہا تھا نہ پایا جو نہ چاہا تھا ملا

    جس کو چاہا تھا نہ پایا جو نہ چاہا تھا ملا بخششیں ہیں بے حساب اس کی ہمیں کیا کیا ملا اجنبی چہروں میں پھر اک آشنا چہرا ملا پھر مجھے اس کے تعلق سے پتا اپنا ملا اس چمن میں پھول کی صورت رہا میں چاک دل اس چمن میں شبنم آسا میں سدا پیاسا ملا پھر قدم اٹھنے لگے ہیں شہر نا پرساں کی سمت میرے ...

    مزید پڑھیے

    ایک تمہارے پیار کی خاطر جگ کے دکھ اپنائے تھے

    ایک تمہارے پیار کی خاطر جگ کے دکھ اپنائے تھے ہم نے اپنے ایک دیپ سے کتنے دیپ جلائے تھے صرف جوانی کے کچھ دن ہی عمر کا حاصل ہوتے ہیں اور جوانی کے یہ دن بھی ہم کو راس نہ آئے تھے حسن کو ہم نے امر کہا تھا پیار کو سچا جانا تھا ایک جوانی کے کس بل پر سارے سچ جھٹلائے تھے اس کے بنا جو عمر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3